روزہ سے تمام طبی وجسمانی ضروریات کی تکمیل
حیدرآباد 8 اپریل (راست) مسلمانوں پر فرض کردہ فرائض میں سے ایک روزہ ہے،اہل اسلام کے نزدیک روزہ کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی نفسانی ہوا و ہوس اور جنسی خواہشوں میں بہک کر غلط راہ پر نہ پڑے اور اپنے اندر موجود ضبط اور ثابت قدمی کے جوہر کو ضائع ہونے سے بچائے۔روزمرہ کے معمولات میں تین چیزیں ایسی ہیں جو انسانی جوہر کو برباد کرکے اسے ہوا وہوس کا بندہ بنا دیتی ہیں یعنی کھانا، پینا اور عورت مرد کے درمیان جنسی تعلقات انہی چیزوں کو اعتدال میں رکھنے اور ایک مقررہ مدت میں ان سے دور رہنے کانام روزہ ہے۔روزے کے دینی، دنیاوی، جسمانی، روحانی، طبی اور سائنسی اتنے فوائد ہیں کہ ان کا شمار بھی ممکن نہیں ہے۔نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ ساحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ،یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کے دوران ان خیالات کا اظہارکیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ روزہ جس کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں،جس کا معنی رکنا اور چپ رہنا ہے،قرآن حکیم میں صوم کو صبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔اصطلاح شریعت میں مسلمان کا بہ نیت عبادت، سحری سے افطار تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے۔رمضان المبارک کے روزے ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئے۔قرآن حکیم نے روزہ کے مقاصد اور اس کے اغراض تین مختصر جملوں میں بیان فرمائے ہیں، مسلمان اللہ تعالیٰ کو کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کریں،ہدایت الٰہی کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائیں کہ اس نے پستی و ذلت کے عمیق غار سے نکال کر، رفعت و عزت کے اوج کمال تک پہنچایااور مسلمان پرہیز گار بنیں اور ان میں تقویٰ پیدا ہو۔روزہ کا بلا عذر شرعی ترک کرنے والا سخت گناہگار اور فاسق و فاجر ہے اور عذاب جہنم کا مستحق۔روزے کے تین درجے ہیں۔ ایک عام لوگوں کا روزہ کہ یہی پیٹ اور شرمگاہ کو کھانے پینے جماع سے روکنا۔ دوسرا اخواص کا روزہ کہ ان کے علاوہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ، پاؤں اور تمام اعضاء کو گناہ سے باز رکھنا۔ تیسرا خاص الخاص کا روزہ کہ جمیع ماسوا اللہ یعنی عزوجل کے سوا کائنات کی ہر چیز سے اپنے آپ کو بالکل جدا کرکے صرف اسی کی طرف متوجہ رہنا۔احادیث مبارکہ روزہ کے فضائل سے مالا مال ہیں۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازہ کا نام ریان ہے۔ اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت اور روزہ دار کے منہ کی بو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پا کیزہ ہے۔ روزہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ہر شے کے لیے زکوٰۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے اور نصف صبر ہے۔ روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی۔ اگر بندوں کی معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔ روزہ بہت سے گناہوں سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے اس لئے بہت سے گناہوں کا کفارہ بھی ہے،اسلامی شریعت میں بہت سے موقعوں پر روزہ کو گناہ کا کفارہ بتایا گیا ہے،اگر قسم کھا کر اس کو توڑنے کا گناہ کرے تو اس کی معافی کی صورت یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر اس کی سکت نہ ہو تو تین دنوں تک روزہ رکھے۔رمضان المبارک کے روزہ کا ایک مقصد اسلام کے نظام وحدت اور مسلمانوں کی عالمگیر اخوت اور باہمی اجتماعیت کا مظاہرہ بھی ہے، کیونکہ سارے مسلمان ایک متعین مہینے کے اندر ایک ہی ساتھ بیک وقت روزہ رکھتے ہیں، اس سے ان میں اتحاد و یکجہتی، باہمی اخوت و بھائی چارگی اور ایک دوسرے کی ہمدردی اور اس سے ہم آہنگی کے جذبات کی نشو و نما اور مسلمانوں کے نطام اجتماعیت کو قوت و استحکام حاصل ہوتا ہے۔طبی لحاظ سے بھی روزہ کے بے شمار فوائد ہیں،روزہ جس طرح گناہوں سے بچاتا ہے اسی طرح جسمانی بیماریوں سے بھی بچاتا ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، روزہ رکھا کرو تندرست ہو جاؤ گے۔روزہ کی افادیت کو کئی غیرمسلم اطبا بھی تسلیم کرچکے ہیں،جدید سائنسی تحقیقات کے ذریعے یہ پتہ چلا ہے کہ صبح سے شام تک روزہ رکھنے اور بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کے جسم میں بہت سی مفید تبدیلیاں اور قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے روزے کے لئے جو اوقات مقرر کئے ہیں وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو تندرست رکھنے والے ہیں۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ روزہ انسان کو دین سے جوڑتا ہے اور اس کی آخرت میں کامیابی کا سبب بھی بنتا ہے، انسان میں صبر اور برداشت پیدا کرتا ہے،یہ صرف عبادت ہی نہیں بلکہ انسانی صحت کے لیے بھی بہت مفید ہے۔اس مبارک مہینہ میں بندے کو اللہ کے قریب ہونے کا موقع ملتا ہے،اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر خاص رحمتیں نازل ہوتی ہیں،گناہوں سے معافی کا بہترین موقع ملتا ہے جس میں بندہ اپنے رب کو راضی کرتا ہے،روزے سے طبیعت میں تحمل پیدا ہوتا ہے اور انسان کو بھوک اور پیاس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔