حیدرآباد و تلنگانہ

ماہ رمضان کا ہر دن اہل ایمان کے لئے خصوصی نعمت

عبادت و ریاضت کے ذریعہ رضاء الٰہی کوحاصل کرنے کی تلقین: مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب

حیدرآباد یکم اپریل (راست) رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے،جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔ اس کے اول حصہ میں حق تعالیٰ کی رحمت برستی ہے، جس کی وجہ سے انوار و اسرار کے ظاہر ہونے کی قابلیت و استعداد یپدا ہوکر گناہوں کے ظلمات اور معصیت کی کثافتوں سے نکلنا میسر ہوتا ہے اور اس مبارک ماہ کا درمیانی حصہ گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے اور اس ماہ کے آخری حصہ میں دوزخ کی آگ سے آزادی حاصل ہوتی ہے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیے ہیں اور میں نے تمہارے لئے اس کے قیام (نمازِ تراویح) کو سنت قرار دیا ہے، لہذا جو شخص ایمان اور حصولِ ثواب کی نیت کے ساتھ ماہِ رمضان کے روزے رکھتا ہے اور اس کی راتوں میں قیام کرتا ہے وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے پیدا کیاتھا۔نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشادپاشاہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن،مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشادپاشاہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک بار پھررمضان المبارک ہماری زندگیوں کا حصہ بننے جارہا ہے،حضرت سلمان ؓ بیان کرتے ہیں،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطاب کیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم الشان اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہو گیا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض کیا ہے اور راتوں کے قیام کو نفل۔ جو شخص اس میں قرب الٰہی کی نیت سے کوئی نیکی کرتا ہے اسے دیگر مہینوں میں ایک فرض ادا کرنے کے برابر سمجھا جاتا ہے اور جو شخص اس میں ایک فرض ادا کرتا ہے گویا اس نے باقی مہینوں میں ستر فرائض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ اور صبر کا ثواب جنت ہی ہے۔ یہ غم خواری کا مہینہ ہے، اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کی افطاری کراتا ہے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ نیز اسے اس (روزہ دار) کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اس سے اس کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک روزہ افطار کرانے کی طاقت نہیں رکھتا۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ ثواب اللہ تعالیٰ ایک کھجور کھلانے یا پانی پلانے یا دودھ کا ایک گھونٹ پلا کر افطاری کرانے والے کو بھی دے دیتا ہے۔ اس مہینے کا ابتدائی حصہ رحمت ہے۔ درمیانہ حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ملازم پر تخفیف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیتا ہے۔ اس میں چار کام زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرو۔ دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے اور دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ کار نہیں۔ جن دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے ان میں سے ایک لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ہے اور دوسرا اس سے بخشش طلب کرنا ہے۔ جن دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور دوسرا یہ ہے کہ دوزخ سے پناہ مانگو۔ جو شخص روزہ دار کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سے پانی پلائے گا۔ اسے جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری اُمت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے۔ پہلا یہ ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تواللہ تعالیٰ ان کی طرف نظرِ التفات فرماتا ہے اور جس پر اُس کی نظرِ رحمت پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ فرشتے ہر دن اور ہر رات ان کے لیے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ چوتھا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جنت کو حکم دیتاہے کہ میرے بندوں کے لیے تیاری کرلے اور مزین ہو جا، تاکہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔ پانچواں یہ ہے کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں پوری پوری مزدوری دی جاتی ہے۔مولاناممشادپاشاہ نے مزید کہا کہ رمضان المبارک میں خاص طریقہ کی عبادت روزہ فرض کے طور پر متعین کیا گیاہے کہ مسلمان اس عبادت کے ساتھ اپنی تمام ضروریات و حوائج میں بھی مصروف رہ سکتا ہے اورعین اسی خاص طریقہ عبادت میں بھی مشغول ہوسکتا ہے،اہم بات یہ کہ ان کاموں میں مشغول ہونے کے وقت بھی روزہ کی عبادت روزہ دار سے بے تکلف خودبخود صادر ہوتی رہتی ہے اور اس کو عبادت میں مشغولی کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ہماری ذمہ داری ہے کے اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کریں اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دیں۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!