حیدرآباد و تلنگانہ

مصائب و مشکلات میں اللہ تعالیٰ پر یقین کامل ایمان کی علامت

عزم و حوصلے سے حالات کا مقابلہ کرنے کی تلقین۔ مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب

حیدرآباد: 4 مارچ، ہماری آواز(راست)
دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مرضی سے ہوتی ہے، اگر انسان تکلیف کے اسباب جمع بھی کرلے اور اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو اس کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔عام طور پر تکلیف تین وجہ سے پہنچتی ہے،جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے بدلہ کے طور اس کو تکلیف پہنچتی ہے یا پھر انسان سے کوئی گناہ ہوجائے تو اس کے کفارے کے طور پر اس کو تکلیف پہنچتی ہے اور اگر تکلیف پہنچنے سے پہلے گناہ سے بچتا تھا اور تکلیف کے بعد بھی بچتا ہے تو یہ تکلیف رفع درجات کے لئے ہوتی ہے۔نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی وصدر مرکزی مجلس قادریہ نے قبل از جمعہ جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں اپنے خطاب کے دوران کہا۔مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ انسانی زندگی تکلیف و راحت کا مجموعہ ہے،کبھی تکلیف تو کبھی راحت،ساری زندگی تغیر و تبدل سے عبارت ہے کہ نہ یہاں کے تکلیف کے صدمات کو قرار ہے اور نہ ہی راحت کے لمحات کو دوام ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ راحت کے لمحات غیر محسوس انداز میں گزرجاتے ہیں ایک لمبی زندگی بھی راحت کے ساتھ بالکل مختصر نظر آتی ہے جبکہ تکلیف کا معمولی وقفہ بھی سوہان روح ہوجاتا ہے اور زبان شکوہ و شکایت سے معمور ہوجاتی ہے۔لیکن ایک بندۂ مومن کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ تکلیف کے لمحات میں دامن صبر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور ہر قسم کی تکلیف کو مشیت خداوندی مانتا ہے اور اس کی زبان ناشکری سے خالی ہوتی ہے۔بندۂ مومن کو پہنچنے والی تکلیف اس کے لئے خیر ہی خیر ہے اس کے بعد ہی راحت اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔تکلیف کے تعلق سے اکابرین نے اس کے خیر و شر ہونے کا معیار بتایا ہے کہ اگر تکلیف کے صدمات میں انسان رجوع الی اللہ ہورہا ہے اور عبادات واطاعات میں اضافہ ہورہا ہے تو یہ تکلیف اس کے لئے رحمت الٰہی کا عنوان ہے،اس کے بجائے انسان گنہ گار ہے اور باوجود تکلیف کے وہ اپنے گناہوں سے باز نہیں آرہا ہے تو تکلیف اس کے حق میں عذاب ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا،اور ضرور ہم اُنہیں چکھائیں گے کچھ قریب کا عذاب اس بڑے عذاب سے پہلے جسے دیکھنے والا امید کرے کہ ابھی باز آئیں گے۔قریبی عذاب سے مراددنیاکے مَصائب،آفات اور بیماریاں ہیں جن میں بندوں کو اس لئے مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ توبہ کر لیں۔احادیث میں تکلیف کو قرب خداوندی کی علامت قراردیا گیا ہے،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیاکہ زیادہ تکالیف کن کو پہنچتی ہیں،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ تکالیف انبیاء کرام کو پہنچی ہیں،پھر اس کے بعد درجہ بہ درجہ دوسرے افضل لوگ، آدمی کی اس کی دینداری کے لحاظ سے آزمائش ہوتی ہے، اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ورنہ ہلکی، آدمی پرتکالیف کاسلسلہ اس وقت تک رہتا ہے کہ وہ روئے زمین پر بغیر گناہ چلتا ہے،یعنی تکالیف کی وجہ سے اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔ایک روایت میں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد آیا ہے کہ بڑا بدلہ بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ جس قوم کو چاہتاہے اسے آزمائش میں مبتلا کرتا ہے، جو شخص اس آزمائش پر اللہ سے راضی رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی رہتاہے اور جو ناراض رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوتا ہے۔ انسان کو اس کی زندگی میں مختلف تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے،ان تکالیف کو آسان بنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مومن کے لئے ہر وقت یہ تصور پیش نظر رہے کہ یہ دنیا دارالقرار یا دارالبقا نہیں ہے بلکہ دارالامتحان ہے،یہ عمل کی جگہ ہے اور آخرت دارلجزاء ہے۔ حدیث میں مومن کے لئے دنیا کو قید خانہ قرار دیا گیا ہے،ظاہر ہے کہ قید خانہ میں آدمی کو گھر کی طرح سہولیات وآرام نہیں مل سکتا۔جو کوئی بھی تکلیف میں دنیا کی عدم پائیداری،اس کے مقابل حیات اخروی کے دوام اور تکلیف میں قرب خداوندی کے تصور کو ذہن میں رکھے گا،اس کی تکلیف اس کے لئے کافی حد تک ضرور کم ہوجائیں گی۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ تکلیف میں مبتلا شخص اگر بیمارہے تو اپنے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا نہ رہے،تقدیر کا بہانہ بناکر تدبیر سے بے نیاز نہ ہوجائے بلکہ علاج ومعالجہ کرے، اگر بے روزگار ہے تو حصولِ رزق کے لیے سعی وکوشش کرے، اگر اولاد کی نافرمانی سے دوچار ہے تو ان کی اصلاح کی راہیں اختیار کرے، غرضیکہ تکالیف کو دور کرنے کے لیے اپنی مقدور بھر اسباب وذرائع کی دنیا میں کوشش بھی کرے اور ساتھ ہی ان دعاؤں کا خوب اہتمام کرے،جن دعاؤں کی صحابہ کرام کو مصائب و مشکلات کے وقت حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی۔دعاؤں کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے اور اس کے الطاف وعنایات، اور عطایاونوازشات کے دائرہ میں آجاتا ہے، اس طرح اس کے تکالیف راحت سے بدلنے شروع ہوجاتے ہیں۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!