ادبی گلیاروں سے گونڈہ

گھٹنے تک مٹمیلی دھوتی ،کرتا اور گلے میں گمچھا؛ اتنے سادے تھے عوامی شاعر عدم گونڈوی

مقبول ترین عوامی شاعر عدم گونڈوی کی برسی پرخاص

گونڈہ(شیخ شمس):گھٹنوں تک مٹمیلی دھوتی ،کرتااور گلے میں سفید گمچھا ڈال کر مشاعروں وکوی سمیلنوں کے اسٹیج پر بیٹھ کر ہندی ، اردو اور فخرِہند ہندشری رام چندرجی کی ایودھیانگری واس کے آس پاس بہنے والی سرجو ندی کے ساحی علاقوں بالخصوصی رام چرترامانس کے تخلیق کار گوسوامی تلسی داس کے کرم استھلی سوکرکھیت گونارد حلقے میں بولی جانے والی اودھی زبان کا استعمال کرکے اپنی سادہ اور سلیس زبان میں عوامی شاعری کرکے بےشمار مقبولیت حاصل کرنے والے رام ناتھ سنگھ عدم گونڈوی کی آج گیارہویں برسی ہے جب ملک میں ایک طرف فسطائیت اورڈکٹیٹرشپ کا بول بالا ہے تو وہیں دوسری طرف عوام میں مہنگائی اورغربت کی زبردست مار ہے ساتھ ہی فرقہ پرستی عروج پر ہے ایسے نازک دور میں اس عظیم عوامی شاعر وکوی کی تخلیقات کی معنویت خود بخود بڑھ جاتی ہے ۔رام ناتھ سنگھ عدم گونڈوی گونڈہ ضلع کے پرسپور حلقہ کے آٹا گاؤں میں 22 اکتوبر 1947 میں ایک غریب کسان کے گھر میں پیدا ہوئے اور گاؤں پاٹھ شالاؤں میں پڑھائی کرکے بڑے ہوگئے ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندی کے بڑے کویوں دشینت ، نرالا اور گھاگھ جیسی کویتاؤں کے رنگ انکی شاعری میں جان پیدا کرنے لگی ۔وہ جس طرح دیکھنے میں اصلی ہندوستانی تھے اسی طرح انکی شاعری بھی ہندوستانی تھی ۔وہ کبیر پنتھ کے شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔انھوں نے غزلیں خوب کہیں لیکن غزلوں کو محبوب کی گلی سے نکال کر چماروں کی گلی تک لے جانے کی بات کی اور کہا کہ جو غزل معشوق کے جلوں سے واقف ہوگئی اس کو اب بیوہ کے ماتھے کی شکن تک لے چلو جگمگاتے شہروں میں تہذیب کے سفید لباسوں میں چھپے  سیاسی رہنماؤں پر جب عدم نے اپنا طنزیہ تیر چلایا توصوبوں کے اسمبلیوں میں طوفان برپا ہوگیا اور ان کا یہ شعر ایک ایک فرد پر کی زبان پر آگیاکہ کاجوبھنے پلیٹ میں وسکی گلاس میں اتراہے رام راج ودھایک نواس میں حکومتوں کے کے فلاحی کام ہاتھی کے دانت کی طرح ہوتے ہیں دکھانے کے لئے کچھ اوراورکھانے کے لئے کچھ اور اسکی طرف جب عدم کا قلم چلا تو آج تک انکی یہ لائن میدان صحافت کے لئے میل کا پتھر بن گئی کہ تمہاری فائلوں میں گاؤں کا موسم گلابی ہے مگریہ آنکڑے جھوٹے ہیں یہ دعوی کتابی ہے ملک کی آزادی کے 70 سال گزرجانے کے باوجود غریبی اور مفلی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ مزید اضافہ ہورہا ہے جن کی طرف لوگوں کادھیان بالکل نہیں ہورہا ہے اسی لئے عدم نے اہل ادب کو متوجہ کرتے ہوئے کہاکہ بھوک کے احساس کو شعرو سخن تک لے چلو یاادب کومفلسوں کی انجمن تک لے چلو آج جب ملک میں راشٹرواد کے نام پر عوام الناس کو فرقہ پرستی پروسی جارہی ہے اور تیزی کے ساتھ سرکاری اداروں کی نجکاری کی جارہی ہے مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے رامناتھ سنگھ کا یہ شعرکتنا معنی خیز ہوچکا ہے کہ 
وندے ماترم گاتے ہیں صبح اٹھ کر مگر بازار میں چیزوں کا دوگنا دام دام کردیں گے جو ڈلہوزی نہ کرپایا وہ یہ حکام کردیں گے کمیشن دو تو ہندوستان کونیلام کردیں گے فرقہ پرستی آج اس قدر عرج پر ہے کہ ہرطبقہ ملک کے مفادات کو درکنار کرکے اپنے اپنے طبقے کی لیڈرشپ کی اندھی تقلید میں الجھ کر رہ گیا ہے اس کی طرف بھی عدم نے کیاخوب اشارہ کیاتھا کہ ایک جن سیوک کو دنیامیں عدم کیاچاہئے چار چھ چمچے رہیں مائیک رہے مالارہے آنکھ پر پٹی رہے اورعقل پہ تالارہے اپنے شاہِ وقت کا یوں مرتبہ اعلیٰ رہے عدم گونڈوی نے اپنے کلام کی وجہ سے جس قدرشہرت حاصل کی ہے وہ بہت کم شاعروں کے حصے میں آتی ہے انکی شاعری پرشہرکے سینئرجرنلسٹ ایس پی مصرا نے کہاتھا کہ عدم گونڈوی کو میں دشینت کمار کے بالکل نزدیک پاتا ہوں ۔انھوں نے حال کے بندوبست کو حقیقی الفاظ میں پرویا تھا اور اسکے خلاف بغاوت کی آواز بلند کرتےہوئے شاعری کی تھی ۔انکی شاعری سکئی ،منگرے ،جمن اورگھسیاون سے بات کرتی ہوئی بغاوت کے الم بلند کرتے ہوئے سنسد کو للکارتی ہے ۔عدم کو 1998 میں مدھیہ پردیش حکومت نے انہیں دشینت کمارایوارڈ سے نوازا تھا ۔ تو 2001 میں انھیں شہیدشوبھاسنستھا کے ذریعہ ماٹی رتن سمان سے نوازا تھا ۔18 دسمبر 2011 کو علاج کے دوران لکھنؤ میں ان کاانتقال ہوگیا ۔انکی سمادھی پرسپور آٹا گاؤں میں ہے جہاں ہر سال انکی یاد میں مشاعرہ وکوی سمیلن منعقد ہوتاہے ۔

رابطہ نمبر ۔۔۔۔۔8423389468۔۔۔۔9455158469

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے