حیدرآباد : 10 دسمبر ، ہماری آواز(راست)
جب بھی کوئی بندۂ خدا شکر گذاری اختیار کرتا ہے تو صرف اس نے عقل وفطرت کے تقاضہ پر عمل نہیں کیا بلکہ بے فوائد حاصل کئے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو حاصل کیا،اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتوں سے مالامال ہوا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کو چار چیزیں مل گئیں اس کو دنیاوآخرت کی بھلائی مل گئی،شکر کرنے والادل،ذکر کرنے والی زبان، آزمائش پر صبر کرنے والا بدن اوراپنے آپ اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی وصدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کہا۔مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ شکر کا معنی عربی لغت میں احسان مندی کا اظہار اور سپاس گزاری کے جذبہ کے ہیں،شکر اخلاق، اعمال اور عبادات کا بنیادی جزو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں شکر کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے شکر کے متعلق قرآن حکیم میں بہت سی آیات ملتی ہیں،اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کوبہت پسند فرماتا ہے اور ناشکری کرنے والوں کواللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے ڈرایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گااور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔ حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو بہت پسند فرماتا ہے اور اس سے راضی ہوجاتا ہے جو بندہ کوئی لقمہ کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اورپانی کا کوئی گھونٹ پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرتا ہے،اس کا مطلب ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت پر کثرت سے شکر ادا کرتارہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرنا مومنین کا طریقہ اور ان کی ناشکری کرنا کفار و منافقین کا طریقہ ہے۔ادائیگی شکر رضائے الٰہی کے حصول کا باعث اور جنت میں لے جانے والا کام ہے جبکہ ناشکری اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے رہنا چاہیے اس طرح بھی ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر سکتے ہیں،مقام افسوس ہے کہ مصیبتوں کا تذکرہ تو کرتے ہیں لیکن نعمتوں کا ذکر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ شکر گذار بندے بننے کے لئے غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار مخلوقات کو پیدا فرمایا لیکن ہمیں اشرف المخلوقات پیدا فرمایا، پھر مسلمان پیدا فرمایا،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا،ہم صحت مند ہیں لیکن کتنے ایسے افراد ہیں جو مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں،ہمارے پاس رہنے کے لیے اپنا مکان ہے مگر کئی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس اپنا مکان نہیں، ہمیں تین وقت کا پرتکلف کھانا میسر ہے مگر کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں،ہمارے پاس موسم کے لحاظ سے کپڑے موجود ہیں مگر کئی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس صحیح طور پر بدن ڈھنکنے کو کپڑا نہیں ہے،ہمارے پاس جسم کے تمام اعضاء صحیح و سالم موجود ہیں جن کی وجہ سے مطمئین زندگی گزار رہے ہیں لیکن کئی لوگ ایسے ہیں جو معذور ہیں۔نعمتوں پر شکر ادا کیا جائے تو ان میں اضافہ ہوتاہے اور اگر ان کی ناشکری کی جائے تو وہ نعمتیں چھینی جاسکتی ہیں، جب بندے کو نعمتوں کے زوال کا خوف ہو گا تو خود بخود اس کا ذہن نعمتوں کے شکر کی طرف مائل ہوگا کہ کہیں میرے پاس موجود نعمت زائل نہ ہوجائے۔شکرگذاروں کی صحبت اِختیارکریں کہ صحبت اپنا اثر رکھتی ہے، جو بندہ جیسی صحبت اختیار کرتا ہے وہ ویسا ہی بن جاتا ہے، ناشکروں کی صحبت اختیار کریں گے تو ناشکری کی عادت پڑجائے گی اور اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بندوں کی صحبت اختیار کریں گے تو شکر ادا کرنے والے بن جائیں گے۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ اپنے آپ پر غور کریں، خود پر ہوئی رب کی عنایات کا جائزہ لیں اور جو نعمت آپکے پاس موجود ہے اسے ان لوگوں میں تقسیم کریں جو اس نعمت سے محروم ہیں، پیٹ بھر کر کھانے کا شکرانہ یہ ہے کہ آپ کے قریب میں بھوکا سونے والے کا خیال کرنا آپکی ذمہ داری ہے، بینائی کا قرضہ یہ ہے کہ نابینا کو راستہ دکھایا جائے، علم کا شکرانہ ہے کہ آپ جہالت کے اندھیرے مٹائیں، بیساکھیوں کی حاجت نہیں تو شکر ادا کرنے کے لیے کسی لنگڑے کا سہارا بنیں، مالدار ہیں تو شکرانے کے طور پر غریبوں کی امداد کریں اور خوش ہیں تو معاشرے کے غمگین افرادکو خوشی کرتے ہوئے شکر ادا کریں۔آخر میں ایڈیٹر رہنمائے دکن جناب الحاج سید وقارالدین قادری صاحب مرحوم کے لئے دعائے مغفرت و بلندی درجات کی گئی۔